مہر خبررساں ایجنسی نے شہاب نیوز کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ فلسطینی قیدیوں کے ادارے نے ایک رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ غاصب صہیونی حکومت نے دامون جیل میں 31 خواتین اور عوفر، مجدو اور دامون نامی جیلوں میں 160 بچوں سمیت 5000 فلسطینیوں کو قید کر رکھا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق، اسلو معاہدے سے قبل گرفتار ہونے والے قیدیوں کی تعداد 23 ہے جن میں سے محمد الطوس نے جیل میں طویل ترین عرصہ گزارا ہے اور وہ 1985ء سے غاصب صہیونی حکومت کی جیل میں ہیں۔
قابض صہیونی جیلوں میں قید 5000 فلسطینیوں میں سے 11 قیدیوں کو 2011ء کے وفا الاحرار قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے دوران رہا کیا گیا تھا، لیکن 2014ء میں غاصب صہیونی حکومت نے دوبارہ انہیں جیل میں ڈال دیا۔ یہ 11 قیدی اسلو معاہدے سے قبل حراست میں لئے گئے 23 قیدیوں میں شامل ہیں اور ان میں سب سے پہلے قیدی نائل برغوثی ہیں جس نے اپنی زندگی کے 43 برس غاصب صہیونی حکومت کی جیلوں میں گزارے اور ان 43 سالوں میں وہ 34 سال مسلسل قید میں صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔
فلسطینی قیدیوں کے ادارے نے نیز اعلان کیا ہے کہ غاصب صہیونی حکومت کی جیلوں میں سنہ 1967ء سے اب تک 237 فلسطینی اسیران کو شہید کیا جا چکا ہے اور ان اعدادوشمار کے علاوہ، ناجائز ریاست کی جیلوں سے رہائی پانے والے سینکڑوں فلسطینی بھی، اسیری کے دوران مبتلا ہونے والی بیماریوں کے نتیجے میں رہائی کے بعد ابدی نیند سو چکے ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق، غاصب صہیونی حکومت، جیل میں شہادت کے عظیم درجے پر فائز ہونے والے 12 فلسطینی شہداء کی لاشیں ان کے اہل خانہ کے حوالے کرنے سے انکار کر رہی ہے جن میں سے آخری شہید تحریک جہادِ اسلامی کے کمانڈر خضر عدنان ہیں۔
قابض اور طفل کش صہیونی حکومت کی جیلوں میں اس وقت 700 فلسطینی اسیران مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں اور انہیں طبی دیکھ بھال کی اشد ضرورت ہے۔ ان بیمار قیدیوں میں سے کم از کم 24 قیدی کینسر جیسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہیں۔
یاد رہے کہ ان مظالم پر عالمی برادری اور خاص طور پر مسلم ممالک کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔ ان شاءاللہ فلسطین آزاد ہو کر رہے گا۔
آپ کا تبصرہ